ڈونلڈ ٹرمپ کی پاناما نہر پر امریکہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی دھمکی
ڈونلڈ ٹرمپ کی پاناما نہر پر امریکہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی دھمکی
ایریزونا :امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاناما نہر پر امریکہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے پاناما پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ نہر کے استعمال پر حد سے زیادہ راہداری فیس وصول کر رہا ہے۔
ایریزونا میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ وہ پاناما نہر کو غلط ہاتھوں میں جانے نہیں دیں گے اور اس معاملے پر امریکی موقف کو سخت کرنے کا عندیہ دیا۔
ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ کیا کبھی کسی نے پاناما نہر کے بارے میں سنا ہے؟ ہمیں ہر جگہ لوٹا جا رہا ہے، اور پاناما نہر بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ نہر کو دہائیوں پہلے پاناما کے حوالے کرتے وقت کچھ شرائط رکھی گئی تھیں جن پر عمل درآمد ضروری ہے۔
ٹرمپ نے مزید کہا یہ نہر پاناما اور اس کے عوام کو دی گئی تھی، لیکن اس میں قانونی شقیں موجود ہیں۔ اگر ان اصولوں پر عمل نہیں کیا گیا، تو ہم مطالبہ کریں گے کہ یہ نہر مکمل طور پر اور بلا شبہ امریکہ کو واپس کی جائے۔
پاناما کے صدر جوز راؤل مولینو نے ٹرمپ کے بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں کہا کہ پاناما کی آزادی اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاناما نہر کی انتظامیہ پر کسی بیرونی قوت کا اثر و رسوخ نہیں ہے، اور ہم اپنے قومی مفادات کا دفاع کرتے رہیں گے۔
صدر مولینو نے ٹرمپ کے الزامات کے جواب میں کہا کہ نہر کے استعمال پر عائد فیسوں کا تعین شفاف طریقے سے کیا جاتا ہے اور یہ عالمی تجارت کے معیارات کے مطابق ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ اور بین الاقوامی تعلقات کے اصولوں کے خلاف قرار دیا۔
پاناما نہر جو بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کو جوڑتی ہے، ابتدائی طور پر امریکہ کی ملکیت تھی اور 1999 میں ایک معاہدے کے تحت پاناما کو منتقل کی گئی تھی۔ یہ نہر عالمی تجارت کے لیے ایک اہم راستہ ہے اور اس کی اہمیت اقتصادی اور اسٹریٹجک لحاظ سے بہت زیادہ ہے۔
ٹرمپ کے بیان نے عالمی برادری میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بیان امریکی سفارت کاری میں ممکنہ جارحانہ تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی دھمکیاں خطے میں کشیدگی کو بڑھا سکتی ہیں اور امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
پاناما نہر پر کسی ممکنہ تنازعے کے اثرات عالمی تجارت پر بھی پڑ سکتے ہیں، جس کے باعث خطے کی معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔