ڈیجیٹل لوٹ مار؛ پاکستانی صارفین کو ہر سال 9 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان

پاکستان ڈیجیٹل لٹیروں کے نشانے پر آگیا، جہاں صارفین کو ہر سال 9 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچ رہا ہے۔
بین الاقوامی الائنس کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کو مالیاتی فراڈ سے 9.3 ارب ڈالر کا سالانہ نقصان ہونے سے جی ڈی پی کا 2.5 فیصد حصہ ضائع ہو رہا ہے۔ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ عوامی آگاہی ہی مالی اسکیمز سے بچاؤ کا مؤثر ذریعہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو مالیاتی فراڈ اور ڈیجیٹل اسکیمز کے باعث ہر سال تقریباً 9.3 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، جو ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 2.5 فیصد بنتا ہے۔ یہ نقصان آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام سے 33 فیصد زیادہ ہے۔
یہ انکشاف گلوبل اسٹیٹ آف اسکیمز رپورٹ 2025 میں کیا گیا ہے، جو گلوبل اینٹی اسکیم الائنس اور فیڈزائی نے مشترکہ طور پر جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان اُن ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے، جہاں مالیاتی فراڈ معیشت کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔
یہ رپورٹ 42 ممالک کے 46 ہزار بالغ افراد کے سروے پر مبنی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ہر 10 میں سے 7 بالغ افراد گزشتہ سال کسی نہ کسی اسکیم کا شکار ہوئے جب کہ 13 فیصد افراد روزانہ اسکیم کی کوششوں کا سامنا کرتے ہیں۔
پاکستان میں اگرچہ فی کس نقصان دیگر ممالک کے مقابلے میں کم یعنی اوسطاً 139 ڈالر فی متاثرہ فرد ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ نقصان اربوں روپے کے مالیاتی اخراج کا باعث بنتا ہے۔
دنیا بھر میں گزشتہ سال کے دوران ایسے اسکیمز سے 442 ارب ڈالر کا نقصان رپورٹ ہوا، جس سے عالمی مالیاتی نظام پر اس کے تباہ کن اثرات نمایاں ہوئے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ آن لائن خریداری کے فراڈ (54 فیصد)، سرمایہ کاری اسکیمیں (48 فیصد) اور جعلی انعامی اسکیمیں (48 فیصد) دنیا بھر میں سب سے زیادہ عام ہیں۔ اسکیمز کے ذریعے سب سے زیادہ رقوم بینک ٹرانسفرز (29فیصد) اور کریڈٹ کارڈز (18 فیصد) کے ذریعے لوٹی گئیں۔
پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو ڈیجیٹل اسکیمرز کے لیے آسان ہدف بن چکے ہیں۔ یہاں فراڈیے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں تاکہ صارفین کی محنت کی کمائی لوٹ سکیں۔