آم ۔ ایک فلسفہ، ایک خوشبو، ایک تہذیب

آم ۔ ایک فلسفہ، ایک خوشبو، ایک تہذیب

آم صرف پھل نہیں ہوتے ۔ یہ زندگی کا ایک مکمل فلسفہ ہیں، جو سنہری چھلکے میں لپٹا ہوا، مٹی اور محبت سے پیدا ہوتا ہے۔ آم ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی کی سب سے میٹھی چیزیں وقت، برداشت اور دھوپ سہنے کے بعد ملتی ہیں۔
ہر آم کے ذائقے میں ایک یاد بسی ہوتی ہے ۔ بچپن کی گرمیوں کی، نانی کے صحن کی، درختوں سے توڑے گئے آم کی، اور اُن لمحوں کی جن میں خالص خوشی تھی۔ آم ہمیں سکھاتا ہے کہ اصل خوشی اُن لمحوں میں چھپی ہوتی ہے جو ہم دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں۔
ور جب ذکر ہو آم کا، تو مرزا غالب کو کیسے بھول سکتے ہیں، جنہوں نے بڑے ناز سے کہا تھا:
“آم میں دو خوبیاں ہونی چاہئیں: ایک یہ کہ بہت ہوں، دوسرے یہ کہ ٹھنڈے ہوں!”
مرزا غالب
اور آج کی Mango Fest کی تقریب اس قول پر پوری اُتری ۔ آم ٹھنڈے بھی تھے، میٹھے بھی تھے، اور بہت زیادہ بھی تھے! ہر فرد نے غالب کے اس خواب کو عملی صورت میں محسوس کیا، اور ذائقے کی وہ محفل سجائی کہ یادگار بن گئی۔
“پھلوں کا بادشاہ” کہلانے والا آم کبھی غرور نہیں کرتا ۔ وہ جھولتا ہے، پکتا ہے، اور خود کو دوسروں کے لیے پیش کر دیتا ہے۔ اس کی مٹھاس کسی کے منہ میں مسکراہٹ بن کر اُترتی ہے، اور اس کی خوشبو ایک یاد بن کر روح میں بس جاتی ہے۔
آج کے “Mango Fest” میں ہم صرف ایک پھل نہیں چکھیں گے، بلکہ ثقافت، محبت اور اشتراک کا ذائقہ بھی محسوس کریں گے۔ ہر آم جو آج آپ کے ہاتھ میں آئے، وہ صرف مٹھاس نہ ہو ۔ وہ آپ کی جڑوں سے جڑا ہوا ایک پیغام ہو: کہ ہم سب ایک دوسرے کے ذائقے، ایک دوسرے کی خوشبو، اور ایک دوسرے کی یادیں ہیں۔
آئیں۔ آم کو فقط کھائیں نہیں، سمجھیں بھی۔ کیونکہ آم صرف پھل نہیں۔ یہ محبت، مزاج، اور زندگی کا جشن ہیں۔
✨ اس خوبصورت اور پرمٹھاس بھری دوسرے سالانہ آم فیسٹیول کے انعقاد پر، ہم دل کی گہرائیوں سے ڈاکٹر سلیمان لالانی اور زکیہ لالانی کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہیں، جنہوں نے نہ صرف آم کی مٹھاس کو بانٹا، بلکہ محبت، خلوص اور کمیونٹی کے جذبے کو بھی دلوں میں تازہ کر دیا۔ ان کی میزبانی اور مہمان نوازی اس تقریب کی اصل روح تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں