امیدوار پی ٹی آئی میں رہتے تو مسئلہ نہ ہوتا، سنی اتحاد مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، ججز آئینی بینچ

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی براہ راست سماعت کے دوران ججز نے ریمارکس دیے ہیں کہ آزاد امیدوار اگر پی ٹی آئی میں رہتے تو آج مسئلہ نہ ہوتا، سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
عدالتی کارروائی براہ راست سپریم کورٹ یوٹیوب چینل پر دکھائی جا رہی ہے، 12 جولائی کے فیصلے سے متاثرہ خواتین کے وکیل مخدوم علی خان دلائل دے رہے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے الیکشن میں حصہ لیا، کیا سنی اتحاد کونسل پارلیمنٹ کا حصہ تھی، آزاد ارکان اس جماعت کو جوائن کرتے ہیں جس پارلیمنٹ میں موجود ہو۔
وکیل مخدوم علی خان نے مأقف اپنایا کہ آزاد ارکان جیت کر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے تھے، سنی اتحاد کونسل نے عام الیکشن لڑا ہی نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں تھی۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل کو تیرہ ججز نے متفقہ طور پر مسترد کیا، مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کو ڈی نیفائی کر دیا گیا، ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے قبل کوئی نوٹس نہیں کیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دیا تھا، مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے سنی اتحاد کونسل آرٹیکل 185/3 میں آئی تھی تھی۔
جسٹس محمد علی مظہر ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے الیکشن کمیشن کا نوٹی فیکیشن تھا، مخدوم علی خان نے استدلال کیا کہ نوٹی فیکیشن سے اگر کوئی متاثرہ ہوتا تھا تو عدالت کو نوٹس کرنا چاہیے تھا، آرٹیکل 225 کے تحت کسی الیکشن پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 225 کا اس کیس میں اطلاق کیسے ہوتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ معاملہ مخصوص نشتوں کا معاملہ تھا، مخصوص سیٹیں متناسب نمائندگی پر الاٹ ہوتی ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی فہرستیں الیکشن سے قبل جمع ہوتی ہیں، کاغذات نامزدگی پر غلطی پر معاملہ ٹریبونل کے سامنے جاتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر آپکی دلیل بات مان لیں تو پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں تھا۔
مخدوم علی خان نے مؤقف اپنایا کہ اس وقت تک مخصوص ارکان کے نوٹی فیکیشن جاری نہیں ہوئے تھے، عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ آئین و قانون سے برعکس فیصلہ ناقص ہوگا، عدالت کی ذمہ داری ہے اس غلطی کو درست کیا جائے۔