ہیوسٹن میں کراچی یونیورسٹی المنائی ایسوسی ایشن ہیوسٹن کے زیر اہتمام تقریب، اعزازی سرٹیفکیٹس تقسیم

ہیوسٹن (نمائندہ خصوصی) کراچی یونیورسٹی المنائی ایسوسی ایشن ہیوسٹن کے زیر اہتمام ایک یادگار شام کا انعقاد کیا گیا جو یادوں، جذبات، اور جذبے سے بھرپور تھی۔ اس موقع پر صدر اعظم اختر کی انتھک محنت اور غیر معمولی کاوشوں کو سراہا گیا جنہوں نے اس تقریب کو بے مثال کامیابی دلائی۔ہیوسٹن کے میئر نے 15 فروری 2025 کو یونیورسٹی آف کراچی ایلومنائی ہیوسٹن ایسوسی ایشن کے ری یونین کے دن کا اعلان کیا۔بورڈ آف ڈائریکٹرز غلام چشتی، اے رحمان پٹیل، آفتاب سلاٹ، سید فیروز احمد، اور شہاب علوی کے ساتھ ساتھ طاہر ماما اور عبدالرؤف خان کی ٹیم ورک اور لگن کی بھی تعریف کی گئی۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کی شاندار تقریب سب کی مشترکہ محنت کا نتیجہ تھی۔تقریب میں ڈاکٹر عظیم الدین کے متاثر کن سفر، جاوید لغاری کی دل کو چھونے والی باتوں، اے جے درانی کے تجربات، جج سونیا رش کی بصیرت افروز گفتگو، اور مسعود احمد کی یادوں نے حاضرین کو مسحور کر دیا۔ہیوسٹن کے میئر وائٹمائر کی جانب سے پروکلیمیشن جبکہ اسٹیٹ ریپریزنٹیٹو ڈاکٹر سلیمان لالانی اور کونسل ویمن لیٹیشیا پلمر کی طرف سے اعزازی سرٹیفکیٹس دئیے گئے، جنہوں نے اس تقریب کی وقعت اور اہمیت میں اضافہ کیا۔تقریب میں تقریباً 250 شرکاء نے بھرپور شرکت کی اور سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عطیات دئیے۔ اس کاوش سے 40 مستحق طلباء کے لیے پورے سال کی اسکالرشپس کا انتظام کیا گیا، جو روشن مستقبل کی جانب ایک مضبوط قدم ہے۔مہناز زیدی کی بہترین میزبانی، جمیل درانی اور حسنین کی مسحور کن موسیقی، اور فنکارانہ پرفارمنس نے اس شام کو ایک یادگار جشن میں تبدیل کر دیا۔ کراچی ریسٹورنٹ کے لذیذ کھانوں نے محفل کو چار چاند لگا دئیے۔یادیں جو ہمیشہ باقی رہیں گی:یہ شام ثقافت، محبت، اور یکجہتی کا خوبصورت مظہر تھی جو ہمیشہ کے لیے یاد رکھی جائے گی۔ہیوسٹن(خصوصی رپورٹ)کسی معاشرہ میں برائی کو برائی تصور کیا جانا ختم ہو جائے تو اخلاقیات کا معیار گرنے لگتا ہے اور جرائم کی شرح بڑھنے لگتی ہے۔ساٹھ(60) اور کسی حد تک ستر(70)کی دہائی کامعاشرہ لیا جائے تو کراچی یونیورسٹی کے Entranceپر کوئی گیٹ اور نہ ہی سکیورٹی گارڈز کی ضرورت تھی۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ وقت کے ساتھ زمانہ اور ضروریات بدلتے ہیں مگر سوچ اور اصول پسندی کو برقرار رہنا ضروری ہے اور یہ جب ہی ممکن ہو سکے گا جب ہم اپنی درسگاہوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت گاہ بھی بنائیں۔ اپنی نئی نسل کے قومی کردار کی مضبوطی کی طرف خاص توجہ دیں۔ بڑوں کی عزت و احترام کے آداب کو برقراررکھا جائے۔ ادب کا تعلق بنیادی طور پر اخلاق سے ہوتا ہے۔ان خیالات کا اظہار مسعود احمد نے ایک حالیہ Eventمیں تقریر کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جن تعلیمی اداروں سے ہم نے تعلیم حاصل کر کے پروفیشنل مہارت اور اپنے کیریئر(Career)میں ترقی حاصل کی اب ہمارے اوپر بھی یہ فرض بلکہ قرض ہے کہ ان اداروں کی مالی مدد کریں ورنہ کم از کم نئی نسل کو شعور کی صحیح سمت مہیا کرنے کی طرف عملی توجہ دیں تاکہ وہ صلاحیتوں کا مناسب اور صحیح استعمال کر سکیں۔ شاید اسی نظریہ کے تحت مسعود احمد نے تقریر سے پہلے اپنا تعارف اپنی پوتی صوفیہ احمد جو کہ ابھی یونیورسٹی آف ہیوسٹن میں زیر تعلیم ہیں ان سے کروایا۔ تربیت کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی بھی ہو گئی۔ نقش قدم پر چلنے کی پیروی بھی میسر آئی۔ مسعود احمد 44سال سے شہر ہیوسٹن میں رہائش پذیر ہیں اور اس دوران ان کی ہیوسٹن میں پاکستانی کمیونٹی کے لئے ثقافتی، ادبی خدمات کی لسٹ بہت طویل ہے جو انہوں نے ریڈیو پر ادبی پروگرام، معاشرتی مسائل کو دلچسپ سٹیج ڈرامے لکھ کر پیش کی ہو یا پھر 5کتابیں لکھ کر اور پھر PAGHکے منتخب چیئرمین ، کلچرل کمیٹی کی حیثیت سے تاریخ کا سب سے بڑا پاکستانی ثقافتی پروگرام پیش کیا۔ غرض یہ کہ متعدد ایسے کاموں کی داغ بیل ڈالی جس کو آنے والے لوگوں نے Followکیا اور پروان چڑھایا۔ اس تقریب میں مسعود احمد کو ایوارڈز سے بھی نوازا گیا جس کے وہ بہت عرصے سے مستحق تھے۔ بہرحال دیر آیددرست آید مسعود احمد کا اس شعر کا پڑھنا اس کی شکایت کرتا نظر آتا ہے
’’جو در و دیوار کی زینت ہیں انہیں کو دیکھیں
ہم تو بنیاد کے پتھر ہیں نظر کیا آئیں‘‘
مسعود احمد نے 1960سے 1965کے دور کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے اپنے یونیورسٹی کے ان چند ساتھیوں کا ذکر بھی کیا جنہوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مختلف شعبوں جیسے سیاست، سپورٹس، بزنس، فلم اور T.Vوغیرہ میں شہرت اورمقام حاصل کیا۔جیسے عطاء الرحمٰن، ضیا عباس، فتحیاب، تاج حیدر، ممتاز سعید، جاوید جبار، عارف کمال، زاہد حنا، وحید مراد، سہیل رعنا، منصور سعید، عارفہ شمسہ، نوشاد علی، زاہد علی بابر، سلمان جلالی، اقبال زبیری۔
ہیوسٹن تقریب